جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق
عبداللہ نے کہا کہ جنگجوؤں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے والے کشمیری
نوجوان قوم کی آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ
ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی نے بھی کشمیریوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا
ہے۔ فاروق عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار جمعہ کو نیشنل کانفرنس کے سابق
جنرل سکریٹری شیخ نذیر احمد کی دوسری برسی کے موقعے پر سری نگر میں منعقدہ
تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ شیخ نذید احمد رشتے میں فاروق عبداللہ کے
چچیرے بھائی تھے۔ وہ قریب تین دہائیوں تک نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری
رہے۔ فاروق عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا آج اگر ہمارے یہ بچے قربانی دے
رہے ہیں، وہ ایم ایل اے، ایم پی یا منسٹر نہیں بننا چاہتے ہیں۔ وہ قربانی
اس لئے دے رہے ہیں کہ ہمیں اپنا حق چاہیے۔ یہ ہماری زمین ہے اور اس کے مالک
ہم ہیں۔
ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے۔ وہ (نوجوان) نکل گئے ہیں۔ ہر ایک کو
اپنی زندگی عزیز ہوتی ہے۔ کوئی مرنا نہیں چاہتا ہے۔ مگر انہوں نے اللہ
تعالیٰ سے وعدہ کیا ہے کہ زندگی دینے اور لینے والے تم ہی ہو۔ مگر ہم اس
وطن کو آزاد کرنے کے لئے اپنی جان دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں
میں سے کسی نے بھی کشمیریوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا اِن
کو (ہندوستان کو) یا اُن کو (پاکستان کو) ابھی خیال نہیں آرہا ہے۔ یہ وہ
لڑائی ہے
جو 1931 ء میں شروع ہوئی تھی۔ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں۔ نہ ہم اِن
کے دشمن ہیں اور نہ اُن کے۔ لیکن ہم دونوں ممالک سے کہتے ہیں کہ ہم سے
انصاف کرو۔ دونوں نے ہم سے انصاف نہیں کیا۔ 1948 ء میں جو آپ نے (ہندوستان
نے) وعدے کئے، آپ وہ وعدے بھی بھول گئے۔ مگر نئی قوم پیدا ہوئی ہے۔ جو قوم
بندوقوں سے نہیں ڈرتی ہے۔ جو قول نکل گئی ہے کہ ہم اس ملک کی آزادی حاصل
کریں گے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہم گولیوں کا جواب گولی سے دیں گے، وہ تب
نہیں ڈرے تو آج کہاں ڈریں گے۔ مگر اس وطن کو بچانا ہوگا۔
فاروق عبداللہ نے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی شروعات پر زور دیتے
ہوئے کہا گولی کا جواب گولی نہیں ہوسکتی۔ گولی کا جواب استحکام اور پیار
ہی ہوسکتا ہے۔ بات چیت ہی ہوسکتا ہے۔ یہ کہنے سے کہ گولی کا جواب گولی سے
دیا جائے گا، اس سے حالات مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں اور مصیبتیں آئیں گی۔ اس
سے دریغ کرنا ہوگا۔ اور امید کرنی چاہیے کہ ہندوستان اور پاکستان بات چیت
کی میز پر آئیں گے اور بات چیت کا ایک نیا رول ہوگاجس میں یہ مصیبت ختم
ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پائی جانے
والی تلخیوں اور رنجشوں کے کشمیریوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے
کہا مذاکرات سے یہ مار دھاڑ ختم ہوجائے گی اور ہم کشمیری بھی امن سے رہ
پائیں گے۔ اب دیکھئے سیاحتی سیزن شروع ہونے والا ہے۔ اگر یہ مار دھاڑ چلتی
رہی تو کون آئے گا یہاں۔ اور یہاں کس کا نقصان ہوگا۔